تم آئے ہو، نہ شب انتظار گزاري ہے
تلاش ميں ہے سحر بار بار گزري ہے
جنوں ميں جتني بھي گزري بکار گزري ہے
اگر چہ دل پہ خرابي ہزاري گزري ہے
ہوئي ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرے کوئے يار گزري ہے
وہ بات سارے فسانے ميں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزري ہے
نہ گل کھلے ہيں، نہ ان سے ملے نہ مے پي ہے
عجيب رنگ ميں اب کے بہار گزري ہے
چمن پہ غارت گلچيں سے جانے کيا گزري
قفس سے آج صبا بے قرار گزري ہے