ستم شعار ہوا مجھ پہ مہرباں میرا
کیوں ڈھل گیا کسی صحرا میں گلستاں میرا
میں موسموں سے سہم کر بتا کہاں جاؤں
کہ آندھیوں نے گرا ڈالا آشیاں میرا
میں نیند میں ہی رہا صبح کے اجالے تلک
روانہ ہو گیا شب میں ہی کارواں میرا
میں عمر بھر کے لیے کیسے تم کو اپناؤں
تمھارے رہنے کے قابل نہیں مکاں میرا
میں خود سے بھی ہوں بہت دور تم سےکیسے ملوں
تم اپنے دل سے مٹا ڈالو اب نشاں میرا
پروں کو کاٹا و آزاد کر دیا مجھ کو
ہے کس قدر مرا صیاد مہرباں میرا
نہ پوچھ میں نے کبھی دل پہ چوٹ کھائی ہے
غزل میں ہو تو چکا حال دل بیاں میرا
زباں پہ رہتی ہے دشنام گرچہ میرے لیے
عزیز پھر بھی ہے مجھ کو وہ بدزباں میرا
کیا منتظر ہی رہوں تیری التفات ہو کب
ہوا نہیں ہے ابھی پیار کیا عیاں میرا
وہی تو ہے مری رسوائی کا سبب زاہد
جو کل تلک تھا مرا دوست , رازداں میرا