تم زندگی کی ادا لگتے ہو
جیسے جینے کی وجہ لگتے ہو
ہر قدم پہ تیری ہی تمن
جانے کیوں میرے ہی سدا لگتے ہو
کبھی ساتھ کہ صدیوں کی مسافت تک
کبھی گزرتی چھو کے ہوا لگتے ہو
ترک ء تعلق میں تو ہر بات ختم
اب بھلا کیوں مجھ سے خفا لگتے ہو
سرمئ آنکھوں میں یہ ہلکی سی نمی
کبھی محبت کبھی وفا لگتے ہو
دل ء ناداں اتنا نہ مچل
اسکی نظروں میں خطا لگتے ہو
میں کسی شام کا ڈوبتا ہوا سورج
تم چاند کی پہلی ادا لگتے ہو
برسوں بعد جو مقبول ہو عنبر
دل سے نکلی وہ دعا لگتے ہو