تمہارے ترک تعلق کا غم سہا نہ گیا
کہ اس کے بعد تو ہم سے کبھی رہا نہ گیا
راہ حیات میں تم سے بچھڑ کے جان جاں
پھر اک قدم بھی تمہارے بنا چلا نہ گیا
تیرے جمال کی روشن رفاقتوں کے بعد
پھر اک شعر بھی ہم سے کبھی کہا نہ گیا
ہمارے دل میں چھپی ہیں یہ خوشیاں کیسی
کہ گھاؤ اتنے لگے ہیں کہ پھر جیا نہ گیا
مجھے بہار کے موسم سے کیا غرض ہے اب
وہ ایک پھول ہوں جس سے کھی کھلا نہ گیا
کٹی ہے عمر کسی شخص کے خیالوں میں
وہ اک سراب تھا رزمی جسے چھوا نہ گیا