تم مجھے خود سے ہی اکتائے ہوئے لگتے ہو
دل پہ کوئی گہرا گھاؤ کھائے ہوئے لگتے ہو
غیروں کے دیئے درد کا رنج ایسا نہیں تو ہوتا
تم تو مجھے اپنوں کے ستائے ہوئے لگتے ہو
ویران آنکھیں بےترتیب باتیں چہرے پہ تفکر پے
اپنے ہی کسی اقدام پہ پچھتائے ہوئے لگتے ہو
ہے زرد زرد چہرہ لہجے میں بھی تھکن سی ہے
کیوں تازگی نہیں ہے کملائے ہوئے لگتے ہو
عظمٰی میرا خیال ہے میں جتنا سمجھ پائی ہوں
خٰود سے کوئی سمجھوتہ نبھائے ہوئے لگتے ہو