چاہے تم مجھکو اپنا کہتی ہو
چاہے دل کے قریب رہتی ہو
تم مری دوسری محبت تھی
لگ رہا تھا کے جیسے پہلی ہو
مجھکو اپنے مفاد سے ہے غرض
تو ہو چاہے تری سہیلی ہو
سن کے آواز ایسا لگتا ہے
تم بھی میری طرح اکیلی ہو
رات کی آنکھ میں کسی لمحے
چاندنی کی سیاہی پھیلی ہو
میں تو سمجھا تھا ایک شعر تمہیں
تم مری سوچ سے بھی گہری ہو
کیا کبھی خواب میں ڈری ہو تم
کیا کبھی جاگتے میں سہمی ہو
کیا کہوں تب بہت ہی بولتا ہوں
بات جب کوئی بھی نہ کہنی ہو
کوئی دستک نہی ولی صاحب
آپ بھی نا بلا کے وہمی ہو