روتی آنکھوں سے تجھ کو یوں
گودی میں ماں کی رکھا تھا
بولا تھا تم پہ بوجھ ہے یہ
قسمت میں جو بھی لکھا تھا
تیری ذات کے نہ ہونے کا غم
ماں کی آنکھوں میں دکھتا تھا
اس غم کو پیار سے سینچ کے ہی
دکھ میں بھی ہار نہ دیکھ کے ہی
تیری ماں نے تجھ سے بولا تھا
ان آڑی ترچھی نظروں سے
ان سرد مہر سے لہجوں سے
گھبرانا نہ میری گڑیا تم
بس ہمت کرتی جانا تم
اک دن تو ایسا آۓ گا
ہر کوئ تجھے اپناۓ گا
تیری ذات کے نہ ہونے کا غم
میرے اندر سے مٹ جاۓ گا
اس کم عمر کی بازی میں
تیرے ہونے کی ناراضی میں
کیا قدم تیرے لرزاۓ تھے؟
تیرے عزم کو روک کیا پاۓ تھے؟
شورش کو تھام کے دنیا کی
پھر پوچھو اپنے اندر سے
تم نازک سی اک عورت ہو؟
بند باب ہوا کم عمری کا
دیکھا نیا رنگ دنیا کا
عمر سیڑھی چڑھتے جانے سے
اور جیون کے آزمانے سے
تیری ہمت آہن کم نہ ہوئی
نئ صفوں میں ہر دم بڑھتی گئ
لوگوں نے تجھ سے یہ تھا کہا
تو صنف نازک ہے میری جاں
یہ تجھ سے ہو نہ پاۓ گا
لوگوں نے تجھ سے یہ تھا کہا
تیری عمر کی گہری ریکھائیں
تیرے چہرے کو سجاتی ہیں
تیری ہمت کا بتالتی ہیں
اب تجھ سے ہو نہ پاۓ گا
ہر چوٹ پہ بھی ہر ضرب پہ بھی
کئی کڑوی باتیں پی کر بھی
ہر رشتے کو تو سجاتی گئ
وفا کی رسم نبھاتی گئ
اس رنگ برنگی دنیا میں
کیا قدم تیرے لرزاۓ تھے؟
تیرے عزم کو روک کیا پاۓ تھے؟
شورش کو تھام کے دنیا کی
پھر پوچھو اپنے اندر سے
تم نازک سی اک عورت ہو؟