تم نہ آئے ابھی ، تم نہ آئے ابھی
چڑیاں اپنے نشیمن کو واپس ہوئیں
روئے خورشید کی کرنیں مدھم پڑیں
سایہ مٹنے لگا، شام ڈھلنے لگی
رت بدلنے لگی، رات آنے لگی
تم نہ آئے ابھی ، تم نہ آئے ابھی
لو صبا کے تھپیڑے بھی چلنے لگے
آسماں پر ستارے چمکنے لگے
چپکے چپکے اندھیرا بھی چھانے لگا
چاند اگنے لگا، شمع جلنے لگی
تم نہ آئے ابھی، تم نہ آئے ابھی
منتظر ہیں تری بستروں کی شکن
چوڑیوں کی کھنک، پائلوں کا بھجن
رات آدھی ہوئی، نیند غائب ہوئی
تن اکڑنے لگا، آنکھ جلنے لگی
تم نہ آئے ابھی، تم نہ آئے ابھی
پَو پھٹی صبح کی، مرغ نے بانگ دی
مسجدوں سے صدائے موٴذن اٹھی
مندروں میں بھی ناقوس بجنے لگے
رات جانے لگی، صبح آنے لگی
تم نہ آئے ابھی، تم نہ آئے ابھی
بدلیوں کے پرے، چہرہ ڈھانپے ہوئے
اک عروسِ فلک، رخ سجائے ہوئے
سوچتی ہے اسے کب اجازت ملے
سانس گھٹنے لگا، آس مرنے لگی
تم نہ آئے ابھی، تم نہ آئے ابھی