یہی بات ہے بات کو تم نہ سمجھے
صد افسوس حالات کو تم نہ سمجھے
کہاں اور کیسے ملے ہم تھے دونوں
اچانک ملاقات کو تم نہ سمجھے
برستے ہیں کیسے یہ بادل بے موسم
ان آنکھوں کی برسات کو تم نہ سمجھے
میری جان اتنا ضیا سے نہ کر ضد
پنوہر کی ضدی ذات کو تم نہ سمجھے