تم نے مڑ کے جو نہ دیکھا ہمیں ٹھکراتے ہوئے
انتقاماً تجھے آواز نہ دی جاتے ہوئے
اشک نکلے تھے مگر اُس کو دکھائی نہ دیے
ساتھ بارش نے دیا آنکھ کے بھر آتے ہوئے
ایسی فنکاری سیکھا دی مجھے پھر دنیا نے
میں ترے بعد جو روئی بھی تو مُسکراتے ہوئے
زخمِ دل کھا کے پھڑکتی یوں تھی جیسے
پھڑ پھڑاتا ہوا پنچھی کوئی مر جاتے ہوئے
جلد مر جائو گی اس طرح اگر جیتی ہو
ایک دن ایسے کہا یار نے سمجھاتے ہوئے
وہ دالان میں داخل ہوا کرتا میرے جب
بھاگ کر کمرے میں گھس جاتی تھی شرماتے ہوئے
گھر کے باغیچے میں جب بھی میں ٹہلتی شاکرہ
خوش ہوا جایا کرتا تھا وہ پھول کو سہلاتے ہوئے