تمام رات قیامت کا انتظار کرتے رھے
تمام رات پل سراط پر چلتے رھے
اک خوف رہا دل پر مسلط اسقدر
کبھی جینے کبھی مرنے سے ڈرتے رہے
آگ کو روشنی سمجھ کر یوں بھولے
رات بھر چراغوں پہ پروانے جلتے رہے
تاریک مکانوں میں بےرنگ چہرے
اشک خونی سے رنگ بھرتے رہے
یہ بھی تو شائد معجزے سے کم نہیں
میرے خواب تعبیروں سے بچتے رھے