تمام شہر ہی سُنسان دکھائی دیتا ہے
یہاں ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے
جزبہء انسانیت بھی ہو تو ہم جانیں
یوں تو ہر بشر انسان دکھائی دیتا ہے
چارہ گر کہتے ہیں کہ یہ مریضِ عشق
چند دنوں کا مہمان دکھائی دیتا ہے
وہ بولا تو حشر برپا کر دے گا ظالمو
اب جو مظلوم بے زبان دکھائی دیتا ہے
اُنہیں زمیں کے ذرے نظر آئیں کیسے
جنہیں ہر وقت آسمان دکھائی دیتا ہے
اک ایسی ہستی ہے جو ہم میں ہے پنہاں
باقی یہ سارا جہان دکھائی دیتا ہے
کیا خبر اُس کے باطن میں کیا ہے امر
وہ جو بظاہر مہربان دکھائی دیتا ہے