تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لئے
اور اپنی موت بھی آئے تو بس اسی کے لئے
جوازِ ترکِ تعلق تو کچھ نہ تھا ، پھر بھی
بچھڑ گیا ہوں میں تجھ سے تری خوشی کے لئے
کھلا یہ بھید بھی ، لیکن تجھے گنوا کے کھلا
منافقت بھی ضروری تھی دوستی کے لئے
وہ بے خبر ہی سہی میرے حال سے یکسر
میں مضطرب ہوں مگر آج بھی اسی کے لئے
اگر طلوعِ سحر کا یقین ہو مجھ کو
میں دل کے ساتھ ہی جل جاں روشنی کے لئے
ذرا انہیں بھی کبھی دیکھ میرے نبض شناس
عذاب سہتے ہیں ، جیتے ہیں جو کسی کے لئے