دن بھر کی مسافت شام سے لپٹ گئی
انتظار کی گھٹا تھی سو وہ تو چھٹ گئی
دوستوں کے روپ میں دشمن بہت تھے
کچھ طبعیت بھی اپنی اناؤں پہ ڈٹ گئی
قبیلے کی روایات سے میں بغاوت جو کر گیا
پھر تمام عمر میری سزاؤں میں کٹ گئی
میں کہاں کہاں سے اپنی کرچیاں سمیٹتا
اک جان تھی جو، سو حصوں میں بٹ گئی
عثمان میں خود اپنی نظروں سے گر گیا
اے دل چل تیری تشنگی تو ہٹ گئی