تمغہ ء حسنِ نگارش بھی نہیں چاہتے ہیں
شعر کہتے ہیں ، ستائش بھی نہیں چاہتے ہیں
گھر کی بنیاد میں رکھتے ہیں خرابی ہم لوگ
در و دیوار میں لرزش بھی نہیں چاہتے ہیں
ہم خداؤں کی پرستش کے نہیں ہیں قائل
ہم اناؤں کی پرستش بھی نہیں چاہتے ہیں
ہمیں روٹی نہیں ملتی یہ کتابیں پڑھ کر
سو یہ بیکار کی دانش بھی نہیں چاہتے ہیں
اپنے ماحول کو سفاک بنا کر ہم لوگ
آگ اور خون کی بارش بھی نہیں چاہتے ہیں
جن پرندوں کو غلامی کا نہیں ہو احساس
اپنی آزادی کی کوشش بھی نہیں چاہتے ہیں
ہمیں آوارگی اچھی نہیں لگتی یاور
مستقل کوئی رہائش بھی نہیں چاہتے ہیں