تمناؤں کو مجبوریوں کا ہار پہنا آیا ہوں
میں صبح بستر پہ اک خواب دفنا آیا ہوں
مخالف تم تھے ورنہ جیت مری تھی
اپنے ہاتھوں سےاپنے دلائل مٹا آیا ہوں
جو بہتر تھا ان کیلئے سو کیا کرتا میں
میں خود انکا اک اک خط جلا آیا ہوں
رورہے تھ ےرات گئے دیوانے یوں
ان سبھی کو اپنی سرگشت سنا آیا ہوں
تمہاری یادوں کےسمندر میں غوطہ لگاکے
لہروں میں کہیں خود کو جلا آیا ہوں
بنا دلیل جو مہر لگائی گئی ہے مجھ پہ
ان کو ان کی اوقات دیکھا آیا ہوں
آنسو تھے ، لہو تھا ، غضب تھا منظر
آئینے والے شخص کو میں رلا آیا ہوں
فکر کس کو یاں کہ مخالف ہیں کتنے
میں تو کل کے صالح کو جھٹلا آیا ہوں