تمہاری بزم کی یوں آبرو بڑھا کے چلے
پئے بغیر ہی ہم پاؤں لڑکھڑا کے چلے
یہ مَے پرست مئے ناب پی کے بہکیں گے
نگاہِ ساقی سے ہم تو نظر ملا کے چلے
تمہاری راہ بھی تاریکیوں میں گُم ہوگی
مری اُمؔیدوں کی شمعیں کہاں بجھا کے چلے
شہیدِ ناز کا انجام دیکھتے جاؤ
یہ کیا کہ چپکے سے برقِ نظر گرا کے چلے
نقاب حسنِ سلامت بخیر جلوئہ ناز
کہاں نظر کا مری حوصلہ بڑھا کے چلے
یہ وہ چمن ہے جہاں گل بھی خارِ خصلت ہیں
چمن پرست بھی دامن بچا بچا کے چلے
بجھا سکے نہ کبھی میری شمعِ شہرت کو
یہ تُند جھونکے تو اخترؔ بہت ہوا کے چلے