چمن میں ہر طرف چرچا تیری اداؤں کا
مرحلہ دیکھ رہا ہے میری خطاؤں کا
نہ کہیں کوئی سنگ میل شجر نہ آرام
میں ساری عمر مسافر رہا خلاؤں کا
فروغ شدت وحشت سے کانپتی ہے زمین
یا کوئی آبلہ پھٹا ہے میرے پاؤں کا
جب سے مٹی کا بنایا ہے نشیمن میں نے
ہر سمے تذکرہ ہونے لگا گھٹاؤں کا
تمہاری یاد کو کھونا ہمارے بس میں نہیں
راستہ روک سکا ہے کوئی ہواؤں کا
میں نے ہاتھوں کی لکیروں کو کھرچ ڈالا ہے
کہ ان میں نام نہیں ہے تیری وفاؤں کا