تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا
جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا
نیا اک ہم سفر چاہوں تو آسانی سے مل جائے
مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا
کھلی چھت پر بھی جاکر چاند سے کچھ گفتگو کر لو
غزل کہنا پسِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا
مسلسل گفتگو بھی اپنی وحشت کو بڑھاتی ہے
مسلسل چپ بھی کوئی ہسفر اچھا نہیں لگتا
مصور، پینٹنگ اچھی ہے لیکن کیا کہا جائے
شجر ہم کو تو بے برگ و ثمر اچھا نہیں لگتا
خدو خال و قدو قامت بظاہر پہلے جیسے ہیں
وہ جیسا پہلے تھا اب اس قدر اچھا نہیں لگتا