دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
اور مل گئی خوشی تو اچھالے تمہارے خط
سب چوڑیاں تمہاری سمندر کو سونپ دیں
اور کر دیئے ہوا کے حوالے تمہارے خط
میرے لہو میں گونج رہا ہے ہر اک لفظ
میں نے رگوں کی دشت میں پالے تمہارے خط
یوں تو ہیں بے شمار وفا کی نشانیاں
لیکن ہر ایک شے سے نرالے تمہارے خط
اہل ہنر کو مجھ پہ جگر اعتراض ہے
میں نے جو اپنے شعر میں ڈھالے تمہارے خط
پروا مجھے نہیں ہے کسی چاند کی جگر
ظلمت کی دشت میں ہے اجالے تمہارے خط