تمہیں وقت مل کر بھی نا ملا
ہم تنہا ۔ تنہایوں میں جلتے رہے
حال لکھ لکھ ۔ رکھ لیے خط ہزاروں
تمہیں ارسال کرنے سے ہی ڈرتے رہے
محبت تو تمہیں بھی ہم سے شاید
پھر کیوں زمانے میں ہم تماشا بنتے رہے
زندگی کا سفر تو طے ہو رہا ہیں جیسے تیسے
مگر ہم جی کے بھی ہر پل مرتے رہے
ہاتھوں کی لکیروں میں کونسی تھی لکیر تمہاری
ہاتھوں پے رکھ کے ہاتھ ۔ ہم خود سے ہی سوال کرتے رہے
میرے پاؤں نہیں ۔ میرا دل تھک گیا ہے اب
تجھےمنزل بنھا کر ہم سالوں سے یوں ہی سفر کرتے رہے