تیر لفظوں کے جب چلتے ہیں تڑپتا ہے دل خون رستا ہے کر کے وار کر دیتا ہے گھائل آج کا انسان بھی ڈستا ہے ہجوم دنیا ہو چاہے محفل مجلس آدم ہمیشہ تنہا ہی رہتا ہے