رات کے لرزاں ساۓ ہیں
اک دشت بیاباں اور میں تنہا
ہر جانب گھپ اندھیرا ہے
اک دشت بیاباں اور میں تنہا
چاند کی پھیلی چاندی میں
اِس بال بکھیرے جنگل میں
اک خون پیاسا ڈیرہ ہے
اک دشت بیاباں اور میں تنہا
راہوں میں اب اس ڈیرے کی
جذبات کا ماتم کدہ بھی ہے
اُس ماتم کدے کا پھیرا ہے
اک دشت بیاباں اور میں تنہا
جذبات بَلی کب چڑھ جائیں
کب خواب سہانے راکھ بنیں
کب آنکھ کے موتی خاک چومیں
کب آہیں میرا ساتھ بنیں
کب لحد کا ساتھ میسر ہو
کب تن میرے کو بھاگ لگیں
جب سحر ہو اس جنگل میں
تربت پہ جب احباب ملیں
اسی سحر کا متلاشی ہوں
اک دشت بیاباں اور میں تنہا