تنہائی بن گئی ہے مقدر اپنا
اب دشت ہی میں ہے گھر اپنا
کبھی تو مِل جائے گا اُس کا سُراغ
اِسی آس پہ جاری ہے سفر اپنا
تم بھی کرتے جاؤ ستم پہ ستم
ہم بھی آزماتے ہیں صبر اپنا
پتھر ہی آنے لگتے ہیں ہر سُو
جب اُس گلی میں ہو گُزر اپنا
کہاں کہاں مرہم رکھے کوئی
زخموں سے بھرا ہے جگر اپنا
گُم سُم رہنا سوچتے ہی رہنا
اب یہی مشغلہ ہے امر اپنا