سکوتِ شب ہے
تنہائی ہے
لیکن ایسی تنہائی
کہ جس میں گونجتی رہتی ہیں
ساری ان کہی باتیں
جو دل میں شور تو کرتی ہیں
لیکن کہہ نہیں پاتے
کسی کے دور جاتے پاؤں کی وہ آہٹ
کبھی پتوں کی کھڑ کھڑ میں
کسی کے لوٹنے کا شک
کبھی بیتے پلوں کی گونج
کبھی مدہم سی سرگوشی
کبھی اپنے ہی اندر چل رہی آندھی کی آوازیں
سکوتِ شب ہے تنہائی ہے
لیکن ایسی تنہائی
کہ جیسے دور تک پھیلا ہو آوازوں کا جنگل