تنہائیاں تو دیکھو، کب سے پکار تی ہیں
بیساکھیاں سہاروں کی ، کب نکھارتی ہیں
گھڑلو کوئی کہانی ، ہمارے گناہ کی پھر
ہرزہ سرائیاں ہی ، جلسے سنوارتی ہیں
رکھی نہ ہم نے جگ سے ، کوئی امید باقی
خودداریاں ہمارے ، صد قے ا تار تی ہیں
دشمن کے وار کی تو، پرواہ بھی نہیں ہے
خاموشیاں ہمیشہ , اپنوں کی مار تی ہیں
سچ سننا , جو گوارا کرتے نہیں, کسی کا
زاہد نصیحتیں کب ، اُنہیں سدھار تی ہیں