دیار شوق میں دور ہجر کٹتا ہی نہیں ہے
یہاں کوئی ابر سکوں برستا ہی نہیں ہے
آنکھوں میں رہے شام و سحر گہرہ اندھیرا
سیاہ بادل جدائی کا ادھر چھٹتا ہی نہیں ہے
اپنی وحشت کو کیسے ختم کروں تو ہی بتا دے
مجھے خود تو کوئی راستہ ملتا ہی نہیں ہے
ہم نے غم دوراں کے سبھی رنج بھلا دئیے
غم جاناں کا ایسا زخم جو بھرتا ہی نہیں ہے
تمہارے پاس آتے اور تمہیں منا کے لے آتے
مگر ملنے کا تم نے راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے
شاید تمہارے دل پہ اثر کارگر کر جاتی
تم نے میری نگاہ میں دیکھا ہی نہیں ہے
عظمٰی وفا کی راہ میں تنہائیاں نہیں
دل تیرا ہمنوا ہے تو تنہا تو نہیں ہے