تو تو پتھر تھا تیرے ہاتھ پہ رنگ کیسے آتا
یہ وہ رنگ جو نازک سی کلائیوں پہ دمکتا رہتا
تیرے آنگن میں تھی بکھری چاندنی ہر سو
تو بےخبر ہجر کے موسم میں بھی سویا رہتا
رنگ دھیما تھا حنا نے سو دے دیا اس نے
یہ پتہ تو پتھروں پہ بھی گھستا رہتا
اس نے نہ دیکھا کہ ہاتھ ہے کاغذ یا کلائی
یہ تو ہر حال میں میں ہر سو پہ مہکتا رہتا
پتھر پہ گھستے گھستے کب تلک ٹھرا رہتا
کب تلک بڑی بے دردی سے قتل ہوتا رہتا
ہم کو مورد الزام نئ تھرا اتنی آسانی سے
تیرے کون کا رنگ ایسا نہ تھا کہ ہمیشہ رہتا
ہم کو معلوم ہے اتنی آسانی سے بھلا دو گے
جتنی جلدی سے ہمیں تم نے پکارا ہوتا