کتنی یادیں تیری باتوں سے ہوئیں وابسطہ
تو جو روٹھ گئ زندگانی سے
بے سبب ہی لگا یہ الزام ہم پر
تیری اک بے وجہ کی بدگمانی سے
کیا ہمیں دیا اور کیا ہم سے چھینا ہے
نہ کیجئے گلہ کچھ اس جہان فانی سے
اپنا ہی نہ ہو سکا وہ وگر نہ ہم
جیت ہی جاتے یہ بازی آسانی سے
لا حا صل انتظار میں گزری تمام عمر
اب رہ رہے ہیں ہم یہاں بے سرو سامانی سے
ناحق ہی ہم سے ہو گئے ہیں وہ خفاخفا
دیکھا نہ جب ہم نے انہیں بے دھانی سے
بھولنا چاہوں بھی تو بھول نہ پاؤں اسے
یادیں ہیں کہ امڈتی ہیں یوں فراوانی سے
گردش ایام کو روک نہ پائے کبھی بھی ہم
وقت یوں ہی گزرتا رہا روانی سے
گر ہو سکے تو دشت میں گھر کیجئے ندا
بہتر ہی ہے اس لا دیدہ نامکانی سے