تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو پھول ہے شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو رونقِ حیات ہے تو حُسنِ کائنات
اجڑا ہوا دیار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو پیکرِ وفا ہے مجسّم خلوص ہے
بدنامِ روزگار ہیں تیری گلی کے لوگ
روشن تیرے جمال سے ہیں مہر و ماہ بھی
لیکن نظر پہ بار ہیں تیری گلی کے لوگ
دیکھو جو غور سے تو زمیں سے بھی پست ہیں
یوں آسماں شکار ہیں تیری گلی کے لوگ
پھر جا رہا ہوں تیرے تبسّم کو لوُٹ کر
ہر چند ہوشیار ہیں تیری گلی کے لوگ
کھو جائیں گے سحر کے اجالوں میں آخرش
شمع سرِ مزار ہیں تیری گلی کے لوگ