تو نے تو اے رفیق جاں ، اور ہی گل کھلا دئیے
بخیہ گری کے شوق میں زخم نئے لگا دئیے
دست ہوا نے ریت پر پہلے بنائے راستے
پھر مرے گھر کے راستے ، گھر سے ترے ملا دئیے
کتنی تھی اجنبی فضا ، پہلے پہل فراق میں
درد کے اشتراک نے دوست کئی بنا دئیے
آمد یار کی خبر سن کے ہم اہلِ شوق نے
پلکوں سے گرد صاف کی رستے میں دل بچھا دئیے
پوچھا تھا کیا پسند ہے تم کو مری بیاض میں
اس نے جدائیوں کے شعر چن کے مجھے سنا دئیے
آخری سنگ میل تک سانس اکھڑی چلی مگر
پیش خیال تھا کوئی ، ہم نے قدم بڑھا دئیے
ایک ستم ظریف نے صبح طرب کے نام پر
اپنا دیا بچا لیا سب کے دئیے بجھا دئیے
کتنا سخن شناس تھا طعنہ دیا تو یوں دیا
آپ کے فن کے رت جگے ہجر نے جگمگا دئیے