موج جو ساحل سے ٹکرائے نہیں تو کدھر جائے
آنسو جو پلکوں پر اترائے نہیں تو کدھر جائے
شمع تو مسکراتی رہے پروانے کو جلاتی رہے رات بھر
پروانا اگر موت کی آغوش میں جائے نہیں تو کدھر جائے
مُسکرانا اگرچہ ہر کوئی چاہے صدا عمر بھر
ہجر جو عاشق کو تڑپائے نہیں تو کدھر جائے
عشق کی پیاس مل جائے جشے روح میں اتر جائے
ساغر یار کی پلکوں سے چھلک جائے نہیں تو کدھر جائے
مانا پاس آنے سے جزبات بکھرنے کا اندیشہ ہے تجھے
قربت اگر دوری مٹائے نہیں تو کدھر جائے
نازک سی کلی تیری زلف میں سجنے سے اتراتی ہے
چمن جو تیرے آنے سے اترائے نہیں تو کدھر جائے
بخشتا ہے چند ساعتیں پیار بھری کئی برسوں کے بعد
انتظار زندگی کا جزو بن جائے نہیں تو کدھر جائے