ہماری زیست میں غموں کے سوا کچھ رہا نا باقی
خاموش ہوا ایسےجیسے درمیان کچھ رہا نا باقی
چاند ہر روز نکلتا رہا جھومتا رہا پر اب
اس میں دیکھنے کے لیے کچھ رہا نا باقی
بہاروں میں بھی کانٹے ملے ہمیں لگتا ہیں شاید
اس دنیا میں کانٹوں کے سوا کچھ رہا نا باقی
یوں تو چاروں طرف دلکش نظارے تھے ہمارے
پر تیرے بنا ان دلکش نظاروں میں کچھ رہا نا باقی
جاناں ! ریت کے محل تھے جو اک پل میں بکھر گئے
اب صرف ریت کے زرہ کے سوا کچھ رہا نا باقی
جاتے جاتے سب کچھ لے لیا ہم سے پر اب
پمارے پاس تیری یادوں کے سوا کچھ رہا نا باقی
آنکھیں تیری دید کے لیے جاگتی رہی رات بھر
پر اب ان میں فقط انتظار کے سوا کچھ رہا نا باقی
ہر روز تیرے لیے دروازہ کھلا رکھتے رہے ہم
پر اب ٹوٹی امید کے سوا کچھ رہا نا باقی
تو ہوتا ساتھ تو تمنائیں زندگی بھی کرتے
پر تیرے بنا ہمارے جینے میں کچھ رہا نا باقی