توڑ کر ہم بے خودی کی حد خودی تک آ گئے
موت سے کرکے بغاوت زندگی تک آ گئے
اپنی منزل آپ ہی خود آ رہے ہیں اب نظر
ہو نہ ہو ہم آج اپنی روشنی تک آ گئے
اے غم عالم تری اس دل نوازی کے نثار
تیرے نزدیک آ کے جیسے ہر خوشی تک آ گئے
کیوں فضاؤں میں نظر آتے ہیں جلوؤں کے غبار
کیا مہ و خورشید گرد آدمی تک آ گئے
بجھ رہی ہیں جن کی خاطر عشرتیں کونین کی
ایسے غم بھی کچھ ہماری زندگی تک آ گئے
اب محبت کا ہر اک رخ آئنہ بن جائے گا
آج ہم ان کی نگاہ بے رخی تک آ گئے
فطرتاً اب ہو چلا انسان فطرت آشنا
خود گماں سارے یقیں کی روشنی تک آ گئے
شاعری کی راہ میں کرتے ہوئے روشن چراغ
اے شفاؔ ہم بھی مقام زندگی تک آ گئے