نہ وہ پہلی سی عنایت ہے نہ پہلے سا غضب
توڑ کے سارے مراسم وہ بہت دور ہیں اب
اب جدائی کا ہے موسم وہ ملن رت نہ رہی
جانے پھر لوٹ کے آئے گا زمانہ وہی کب
ایک رسوائی بنی جاتی ہے یہ زیست مری
انگلیاں اٹھتی ہیں مجھ پہ یونہی ہنس دیتے ہیں سب
اب خیالوں میں اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
اب کسی طور بھی کٹتے ہیں نہ دن اور نہ شب
کوئی بتلائے کہ یہ زیست گزاروں کیسے
آج تک آیا نہ جینے کا مجھے کوئی بھی ڈھب
کوئی بھی آیا نہ اس غم میں تسلی دینے
دوست نکلے ہیں برے وقت میں کتنے ہی عجب
اس کی بازار میں قیمت نہیں ہوتی کوئی
جس کی تھوڑی سی بھی رہتی نہیں لوگوں میں طلب
مجھ سے پھر یوں نہ خفا ہو گی مری جان غزل
میری باتوں کا سمجھ جاؤ اگر تم مطلب
درد میں ڈوبے ہیں زاہد یہ جو دن رات مرے
اس تڑپنے کا بتاؤں تو بتاؤں کیا سبب