تُو مجھ سے اِتنا بدگمان سا کیوں ہے
آخر کچھ تو بول بے زبان سا کیوں ہے
عشق کو تو ہونا چاہیے تھا فقط عشق
مگر یہ ایک کٹھن امتحان سا کیوں ہے
تُو ہے۔ درد ہے۔ اور ہیں تیری یادیں
پھر دل میرا اتنا ویران سا کیوں ہے
وہ جو اپنے آپ کو سمجھتا ہے پارسا
اگر فرشتہ ہے تو انسان سا کیوں ہے
میں نے ڈوب کر کی تیرے حکم کی تعمیل
اے نا خدا اب تُو پریشان سا کیوں ہے
شہرِ محبت میں اگر ہر ہاتھ میں ہے گُل
پھر ہر ایک سر لہولہان سا کیوں ہے
چاند کو چھونے کی ضد کرتا ہے اکثر
یہ دل بچے کی طرح نادان سا کیوں ہے
اِس نفسی‘ نفسی کے عالم میں رہ کر امر
فقط تُو ہی اتنا پریشان سا کیوں ہے