کبھی دیکھا ہے تم نے
ساحل پر کھڑے ہو کر
کیسا انوکھا رشتہ ہے
ساحل اور سمندر کا
ساحل کی تڑپ تم نے
کبھی محسوس کی ہے کیا
سمندر میں سمانے کو
کیسے بےتاب ہوتا ہے
کیسے منتظر رہتا ہے
کہ اٹھیں موجیں سمندر میں
اور کوئی لہر آئے
بھگوئے ریت کو اسکی
کچھ سنگ سنگ بھی لے جانے
ساحل اور سمندر کا
وصل یہ کچھ لمحوں کا
ساحل کی تشنگی
ایسے بجھاتا ہیں
کسی دشت کے راہی کو
اچانک بارش کی بوندیں
جیسے سرشار کرجائیں
تمہارا قرب پانے کو
پل پل میرے ہمدم
یونہی تڑپتی ہوں میں بھی
میرے تشنہ سارے جزبے
ہیں منتظر کب سے
کہ تیرا قرب لمحوں کا
مانند سمندر کے
مجھے سیراب کرجائے