میرے کپڑوں پہ شکن رہنے دو
بال الجھے رہیں
جوتوں پہ جمی گرد رہے
خام رہنے دو مرے شعروں کو
ان میں بے ساختہ پن رہنے دو
مجھ میں جنگل کا سا بکھراؤ ہے
اسے کرنا نہ چمن، رہنے دو
ٹیڑھی پگڈنڈیاں، کچے رستے
ان ہی راہوں کا مسافر ہوں میں
کھونے کے ڈر سے یہ خالی سڑکیں
راہ سمجھاتی، سپاٹ اور سیدھی
مجھے اک آنکھ نہیں بھاتی یہ کالی سڑکیں
کچے رستوں پہ چلن رہنے دو
مطمئن ہونا کوئی ہونا ہوا؟
دلِ آسودہ کوئی دل ہے کیا؟
سو مرے دل میں چبھن رہنے دو
عیب ہے اور خسارہ ہے مکمل ہونا
مجھے تکمیل کی حالت سے بچے رہنا ہے
لاکھ امکان ہیں وسعت کے ادھورے پن میں
مجھے تکمیل کی تربت سے بچے رہنا ہے