صدائیں کرتے کرتے تھک چلے ہم
لگائی آگ اُس نے اور جلے ہم
دھویں سے غم کے اب دم گھٹ رہا ہے
نہیں احساس اُس کو مر چلے ہم
تجھ سے دوری ؟ یہ کہاں سوچا تھا
تھے فقط خیر تِری چاہنے والے ہم
لاکھ سمجھایا اُسے پر نہ وہ کبھی سمجھا
ہجتیں اپنی طرف سے تمام کر چلے ہم
تو جو چاہا وہی مانا نہی بدلے ہم
کیا خطا ہوئی تھی ایسی جو ملے اتنے غم
تُو نے چاہا ہی یہی دُور رہوں میں تجھ سے
خیر خواہ اتنے تھے تیرے اور اکیلے ہم