تھک گیا راہ میں قافلہ پیروں کی بات کرتا ہے
منزل کا احساس آج اندھیروں کی بات کرتا ہے
ہاتھوں میں صدا کی ویرانیاں پھیل گئی اور
میرا مقدر تو ہمیشہ لکیروں کی بات کرتا ہے
سحر آ نکلی کچھ دریچے اب بھی کھلے ہی رہ گئے
وہ سخی تو یونہی فقیروں کی بات کرتا ہے
اپنی تنہائیوں سے بچھڑ کے پھر گھٹاؤں سے نہ ملو
ہر الجھا ہوا زلف یہاں اسیروں کی بات کرتا ہے
اپنوں سے تو زندگی کی تجدید نہ ہوئی پھر
تسکین کا ہر عدم ابکہ غیروں کی بات کرتا ہے
ٹھہراؤ رغبت میں کہیں آنکھیں اٹک جاتی ہیں
لٹُکے یہ زمانہ اکثر لٹیروں کی بات کرتا ہے