تھکن تھی لپٹی روح سے
من بھی تھا اداس بہت
کھولا پھر جب گیلری کو
تھے یادوں کے امبار بہت
جھٹ سے دل کو ہول اُٹھے
گزر گئے ہیں کیا سال بہت
وہ بیتے لمھے وہ ساتھ تمہارا
آئے بھولے بھٹکےخیال بہت
تھوڑی ہسی اور چند آنسو لئیے
خوش پھر بھی تھے ہم یار بہت
بیزاری سے پھر ہم اٹھ بیٹھے
یاد کر کر تجھےگئے ہار بہت
تو بھی کرتا ہو گا یاد کبھی
رهتے ہیں اب ہمیں گمان بہت