تھکے چہرے بجھی آنکھوں کو اکثر دیکھ لیتا ہوں
میں خوشیوں میں بھی یہ دُکھ کے مناظر دیکھ لیتا ہوں
مجھے حیرت نہیں ہوتی مری تذلیل کچھ بھی ہو
میں کیا ہوں جھانک کر اپنے یہ اندر دیکھ لیتا ہوں
کبھی دریا میں اُتروں تو قدم پڑتا ہے خشکی پہ
کبھی صحرا کے نیچے سے سمندر دیکھ لیتا ہوں
جو منزل پا گئے وہ قافلے گنتا نہیں ہوں میں
جو منزل تک نہ پہنچا ہو مسافر دیکھ لیتا ہوں
عقیلؔ اپنی حفاظت میں کوئی رستہ نہ ہو پھر بھی
جو میری سمت کو نکلے وہ لشکر دیکھ لیتا ہوں