تہمت لگائی ہے لگا نے دو دیانَت تھوڑی ہے
وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ میں ہوتی صداقَت تھوڑی ہے
اس میں کئی اور بھی مقاصدہیں چھپے ہو ئے ترے
دعویٰ ترا رستہ دکھانے کا عنایت تھوڑی ہے
تم سن سکو تومیں بیاں کردوں حقائق سب یہاں
سچ بول دوں سچ بولنا کوئی بغاوت تھوڑی ہے
جو بڑ ھے یا گر جو گھٹے تو پھر نہیں وہ سچ رہے
ہاں جھوٹ بڑ ھے یا گھَٹے اس کی ضمانَت تھوڑی ہے
سچ نفع یا نقصان اپنا تول کر مت بول تو
یہ سچ تمہارے باپ کی کوئی تجارَت تھوڑی ہے
احساس جن کو ہے نہیں سچ جھوٹ کا اپنے تو پھر
ان کو چلو میں ڈوبنے پربھی ندا مَت تھوڑی ہے
تم دھوکہ دے کر خو ش مت ہو دھوکہ واپس پلٹے گا
یہ دھوکہ آخر دھوکہ ہے کوئی کرامَت تھوڑی ہے
ہم آپ جیسا سوچ تے تھے پر وہاں ہے کچھ نہیں
ہم کو ملی یہ آج بھی سچی قیادَت تھوڑی ہے
تم دوسروں کی مت سنا وہ تو پتھر ہیں پوجتے
حالات کی ہر ایک کو اتنی بصارَت تھوڑی ہے
ناراض مت ہو ہم سے تم اے بے خبر کچھ تو سمجھ
جو جانتے ہیں سو کہا دل میں عداوَت تھوڑی ہے
اب کھو نے کا اور پانے کا ہے غم کسے تو مت ڈرا
تو کر گذر معلوم ہے تجھ میں شجاعَت تھوڑی ہے
آئینگے سچ بو لنے والے مِرے ہاں بعد بھی
سچ پولنے کی آخری میری جسارَت تھوڑی ہے
ہاں دھوکے کھا کر بھی یہ زاہد چپ رہا ہے کس قدر
سچ بات ہوں کہتا رہی ان میں عدالت تھوڑی ہے