تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس ليے آئے تھے سو ہم وہ کر چلے
زندگي ہے يا کوئي طوفاں ہے
ہم تو اس جينے کے ہاتھوں مر چلے
کيا ہميں کام ان گلوں سے اے صبا
ايک دم آئے ادھر اُدھر چلے
دوستوں ديکھا تماشا ياں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس موت جي جلا تب جانئيے
جب کوئي افسوں ترا اس پر چلے