تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
گھر سے باہر اآنے کی کچھ سزا تو ملتی ہے
لوگ لوگ ہوتے ہیں
ان کو کیا خبر جاناں
آپ کے ارادوں کی خوبصورت آنکھوں میں
بسنے والے خوابوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں
دل کی گود آنگن میں پلنے والی باتوں کے
زخم کیسے ہوتے ہیں
کتنے گہرے ہوتے ہیں
کب یہ سوچ سکتی ہیں
ایسی بے گناہ آنکھیں
گھر کے کونے کھدروں میں چھپ کے کتنا روتی ہیں
پھر بھی یہ کہانی سے
اپنی کج بیانی سے
اس قدر روانی سے داستاں سناتے ہیں
اور یقین کی آنکھیں
سچ کے غمزدہ دل سے لگ کے روتی ہیں