تیر جیسے کمان سے باہر
لفظ نکلا زبان سے باہر
مجھ میں اس وقت دل دھڑکتا تھا
میں تھا جب جسم و جان سے باہر
ملنے والا ہے اک ٹھکانہ مجھے
ہر زمان و مکان سے باہر
ہیں قدم در قدم نشاں اُس کے
اور وہ ہر نشان سے باہر
اک ستارہ رہا ہے پاس میرے
رات بھر آسمان سے باہر
بات سچ ہے فقط وہی اشرف
جو تھی سارے بیان سے باہر