زمین ہو کر فلک پانے کی
امید کیوں کی تو نے
کانٹے تھے مقدر میں تو پھر
پھولوں کی امید کیوں کی تو نے
تیرا دل تو شیشہ تھا تو اس کے
جڑے رہنے کی امید کیوں کی تو نے
جبکہ تو اک تاریک رات تھی تو پھر
سویرائے کی امید کیوں کی تو نے
جب دیتے ہیں سب زخم تو پھر
مرہم کی امید کیوں کی تو نے
تھے جب غم کے آنسو تو پھر
خوشی کے آنسوں کی امید کیوں کی تو نے
جب قطرہ تھی محبت اس کی
تو سمندر کی امید کیوں کی تو نے
وہ راہی اور تو رستہ تھی تو پھر
منزل بنے کی امید کیوں کی تو نے
جبکہ انسان ہیں تو ، تو پھر
اس کی زندگی بنے کی امید کیوں کی تو نے
جب وہ رکا ہی نہیں تو اس کے
رکنے کی امید کیوں کی تو نے
اب تو بھول چکا ہیں وہ تو پھر
اس کے لوٹ کی امید کیوں کی تو نے