تیرےنقش پا پہ چل کر میں تجھ تک آ تو جاتا
اک طوفاں جا رہا تھا تیرا ہر نشاں مٹاتا
میں نے خودکواپنے ہاتھوں تیرے ساتھ کھو دیا تھا
مجھے اپنی خبر نہیں تھی کیسے تجھے ڈھونڈ کہ لاتا
تیری وفا پہ ہوں نثار میری زندگی کے لمحے
مجھے مجھ سے کون بچاتا گر بے وفا تو ہوتا
تیرا تصور کبھی قاتل اور ہے کبھی مسیحا
کبھی دے مجھے امرت کبھی زہر ہے پلاتا
میں سو گیا ہوں تجھ کو صدا بار بار دے کر
تو پکارتا جو گلشن تو مر کہ جی میں جاتا