اپنے اندر ہم بھی, رکھنے کو تو جہاں رکھتے ہیں
دل دکھے نہ کسی کا ,بس، اتنا دھیاں رکھتے ہیں
اپنا وجود بھی چاق گیریبان ہوا ہو ، جیسے
اپنے اندر ہم بھی, رکھنے کو تو جہاں رکھتے ہیں
دل دکھے نہ کسی کا ,بس، اتنا دھیاں رکھتے ہیں
اپنا وجود بھی چاق گیریبان ہوا ہو ، جیسے
رفو گری کا تو ہم بھی اک کمال رکھتے ہیں
دغا ,گر کی ہوتی ہم سے زمانے نے تمہاری طرح
دعاؤں میں تم ہی کو شامل حال رکھتے ہیں
تعلق ہمارا بھی اس ٹوٹے ہوے در سے پرانا تھا
پر مکان کوچہ جاناں میں ہم بھی رکھتے ہیں
زندگی کچھ یوں الجھی کہ , تیرے بعد ,درویش
پل, ہر گزرا ہوا ,تیرا ہی احسان رکھتے ہیں