سرِنوک مژگاں یہ اشکِ خوں کبھی تھم گئے، کبھی ڈھل گئے
تیری آرزو کے چراغ تھے، کبھی بجھ گئے، کبھی جل گئے
کسی انجمن میں سکوں ملا نہ وہ میکدوں میں بہل سکے
رہے عمر ساری ہی بے سکوں، تیری بزم سے جو نکل گئے
مجھے راس آئی نہ زندگی، مجھے مل سکی نہ کبھی خوشی
مَیں رہینِ رنج و الم رہا، میرے روگ سینے میں پَل گئے
مَیں وہ بدنصیب ہوں دوستوں! نہیں پیار میرے نصیب میں
رہیں دل کی دل میں ہی حسرتیں، میرے دل میں ارماں مچل گئے
میرے ہیں نصیب میں گردشیں، میری زندگی میں سکوں نہیں
میرے خواب سارے بکھر گئے، میرے گیت آہوں میں ڈھل گئے
وہی سُن سکے نہ میری فغاں، میرے درد و غم، میری داستاں
دلِ سنگدل نہ پگھل سکا، میرے غم سے پتھر پگھل گئے
مجھے شاخِ ہستی سے توڑ کر، میرے رنگ و خوشبو نچوڑ کر
میرے مہرباں، میرے باغباں کفِ پا سے مجھ کو مَسل گئے
تیرے حُسن پہ جو پڑی نظر، ہوئے دو جہاں سے ہی بے خبر
تمہیں دیکھتے ہی تو مر مٹے، تمہیں دیکھتے ہی مچل گئے
مَیں محبتوں کا سفیر ہوں، مَیں مسرتوں کا فقیر ہوں
ملیں عمر بھر مجھے نفرتیں، کیوں نصیب میرے ہی جَل گئے
جنہیں اشک جان کے آنکھ سے، تُو نے بے رُخی سے گرا دیا
تیری بزم ناز سے چل دیئے، تیری زندگی سے نکل گئے